حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی میں محرم الحرام 1444ھ کےعشرہ اول کی دوسری مجلس سے خطاب کیا ۔انہوں نےموضوعِ مجلس"بعثت سے ظہور تک" کوسورہ جمعہ کی آیت 2 کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی جانب سےعالمِ بشریت میں کسی نبی کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے کلام کے ذریعہ اس معاشرہ کے افرادکو پاک کیا جائے۔ جس طرح پاک و صاف برتن کھانے کے لئے قابلِ استعمال ہوتا ہے، اسی طرح باطنی پاکیزگی انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی خلقت کے ہدف کو سمجھ سکے۔ یہ طہارت اس کی حکمتِ قلب اورعلم میں اضافہ کرتی ہےاور اسے معراجِ انسانیت تک لے جاتی ہے۔ آدمی کے انسان بننے کے لئے تطہیر کا عمل ضروری ہے ،اسی لئے اس عمل میں تسلسل کے لئےاللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔پس ضروری ہے کہ اگر کوئی کسی کو پاکیزہ بنانااور تعلیم دینا چاہتا ہے تو وہ خود بھی طاہر و عالم ہو۔ جو خود گمراہ ہو وہ کسی کو نجات نہیں دلا سکتااور نہ راہِ راست پر لا سکتا ہے۔ لہذاایک ہادی کو پاکیزہ اور ہدایت یافتہ ہونا چاہیے۔ انبیاء علیہم السلام ہادی و مہدی تھے، ان میں دوسروں کا ہاتھ تھامنے کی صلاحیت موجود تھی۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں انسان کو اپنی شاہکار تخلیق قرار دینےکے ساتھ ساتھ اس کے ملکوتی اورحیوانی پہلوؤں کو بھی پیش کیا ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان حیوانی زندگی سے انسانی زندگی کی طرف سفر کرتے ہوئے انسانیت کی معراج تک جا پہنچے۔لیکن اس سفر کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ہادی ہو جو قدم بہ قدم اس کو معراج کی طرف گامزن رکھ سکے ۔جس ہادی کو اللہ یہ صلاحیت عطا کرتاہے،اسے اپنا نبی و رسول قرار دیتاہے۔ انسان شہوت پرست ہے۔وہ حبِ ذات ،مال، جاہ اور مقام رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالی حیوانی و انسانی شہوات میں توازن کےذریعہ انسان کو روحانی و باطنی زندگی میں ارتقاء پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔چونکہ انسان کی اصل ضرورت عبودیت، پاکیزگی، سچائی،شجاعت اورحبِ خدا ہے، اس لئےاندرکی یہ کیفیت تربیت مانگتی ہے۔ دورِ حاضرمیں بچے کی جسمانی نشوونما اور تعلیم کے حصول پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے لیکن یہ تعلیم اسے مادیت پسند بنا رہی ہے۔ صرف روحانی تربیت کے ذریعہ اس کی روح کا ارتقاء ممکن ہے۔ ایسی تربیت کہ جس کے ذریعہ وہ خود خواہی سے دگر خواہی کا سفر کر سکے،اپنی ذات کےحصار کو توڑ کر دوسروں کے کام آنے کا سوچے اور خلقِ خدا کی بہبود کے لئے قدم بڑھائے اور لذت محسوس کر سکے۔
مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ انبیاء علیہم السلام انسان کے باطن کو صاف و شفاف بنانے آتے ہیں۔ایک ہے فطرتِ انسانی اور ایک ہے تربیت۔ فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا۔ انسان کوالہی فطرت سے گمراہ کرنے والا اس کا خاندان ،معاشرہ یاتعلیمی نظام ہوتا ہے۔ لہذاصرف ظاہر کا دین دار ہونا کافی نہیں ، انسان کےاندر بھی دین داری کا ہونا ضروری ہے۔ اس حوالہ سے جنگِ احد کی مثال موزوں ترین ہے جس میں جنگِ بدر کے برعکس عددی و عسکری برتری کے حامل مسلمان،کفار اور مشرکین سے شکست کھا گئے ۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ وہ تربیت کے مکمل مراحل سے نہیں گزرے تھے۔ ایک چھوٹی سی طمع نے ان کورسولؐ کی بجائے غنیمت کی طرف متوجہ کیا۔جب کہ اسی جنگ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کو شہادت سے محروم ہونے کی وجہ سےروتے ہوئے دیکھا۔انبیاء علیہم السلام جب انسانوں کی تربیت کرتے ہیں تو وہ انہیں پستیوں سے بلندی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ان کے تربیت یافتہ انسان کی فکر آسمانی ہوجاتی ہے،وہ چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں سے پریشان نہیں ہوتا اور اپنےہدف تک پہنچنا اس کے لئے آسان تر ہوجاتا ہے۔انبیاء علیہم السلام چاہتے ہیں کہ ایک ایسا انسانی معاشرہ تشکیل پائے جہاں امن ، محبت، عدل، دیانتداری، سچائی اورمساوات کا نظام ہو اورجہاں بلال اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ کھڑے نظر آئیں اور سلمانؑ بھی اہل بیتؑ میں سے کہلائیں۔